EN हिंदी
ان لبوں سے اب ہمارے لفظ رخصت چاہتے ہیں | شیح شیری
in labon se ab hamare lafz ruKHsat chahte hain

غزل

ان لبوں سے اب ہمارے لفظ رخصت چاہتے ہیں

ذالفقار احمد تابش

;

ان لبوں سے اب ہمارے لفظ رخصت چاہتے ہیں
جاگتی آنکھوں میں خوابوں کی سلامت چاہتے ہیں

نقش کی صورت لکھی آواز کو دے دو رہائی
بے تکلم لفظ بھی اب تو عبارت چاہتے ہیں

ایسی یخ بستہ خموشی میں نہ پھر زندہ بچیں گے
میرے ٹھٹھرے ہونٹ لفظوں کی حرارت چاہتے ہیں

میرے ہاتھوں پر لکھی تحریر مجھ سے کہہ رہی تھی
آنے والے وقت لفظوں کی شہادت چاہتے ہیں

یہ در و دیوار پر بے نام سے چپ چاپ سائے
پھولوں رستوں اور بچوں کی حفاظت چاہتے ہیں

ہجر کے موسم میں یاد آتی ہے خوشبو دوستوں کی
ہم اداسی میں بھی یاروں کی رفاقت چاہتے ہیں