EN हिंदी
اک خواب کا خیال ہے دنیا کہیں جسے | شیح شیری
ek KHwab ka KHayal hai duniya kahen jise

غزل

اک خواب کا خیال ہے دنیا کہیں جسے

دتا تریہ کیفی

;

اک خواب کا خیال ہے دنیا کہیں جسے
ہے اس میں اک طلسم تمنا کہیں جسے

اک شکل ہے تفنن طبع جمال کی
اس سے زیادہ کچھ نہیں دنیا کہیں جسے

خمیازہ ہے کرشمہ پرستئ دہر کا
اہل زمانہ عالم عقبیٰ کہیں جسے

اک اشک ارمیدۂ ضبط غم فراق
موج ہوائے شوق ہے دریا کہیں جسے

باوصف ضبط راز محبت ہے آشکار
عقدہ ہے دل کا عقد ثریا کہیں جسے

برہم زن حجاب ہے خود رفتگی حسن
اک شان بے خودی ہے زلیخا کہیں جسے

عکس صفائے قلب کا جوہر ہے آئینہ
وارفتۂ جمال خود آرا کہیں جسے

رم شیوہ ہے صنم تو ہے رم آشنا یہ دل
حاصل ہے مجھ کو عیش مہیا کہیں جسے

خونی کفن یہ سینت کے رکھا ہے کس لیے
قاتل وہ ہے کہ رشک مسیحا کہیں جسے

سب کچھ ہے اور کچھ بھی نہیں دہر کا وجود
کیفیؔ یہ بات وہ ہے معما کہیں جسے