ہوا خورشید کے دیکھے سے دونا اضطراب اپنا
کہ یہ نکلا سحر کو اور نہ نکلا آفتاب اپنا
ترے منہ کے جو ہر دم روبرو آنے کو کہتا ہے
ذرا آئینہ لے کر منہ تو دیکھے آفتاب اپنا
نہ اتنا ظلم کر اے چاندنی بہر خدا چھپ جا
تجھے دیکھے سے یاد آتا ہے مجھ کو ماہتاب اپنا
خفا دیکھا ہے اس کو خواب میں دل سخت مضطر ہے
کھلا دے دیکھیے کیا کیا گل تعبیر خواب اپنا
سحر آسا عیاں ہوتے ہی لی راہ عدم ہم نے
ہوا آنا بھی اور جانا بھی ایسا کچھ شتاب اپنا
نظیرؔ اس بحر میں فرصت کم اور عیش و طرب لاکھوں
تو پھر اب حق بہ جانب ہے کرے کیا کیا حساب اپنا
غزل
ہوا خورشید کے دیکھے سے دونا اضطراب اپنا
نظیر اکبرآبادی