EN हिंदी
ہوتی ہے گرچہ کہنے سے یارو پرائی بات | شیح شیری
hoti hai garche kahne se yaro parai baat

غزل

ہوتی ہے گرچہ کہنے سے یارو پرائی بات

میر تقی میر

;

ہوتی ہے گرچہ کہنے سے یارو پرائی بات
پر ہم سے تو تھنبے نہ کبھو منہ پر آئی بات

جانے نہ تجھ کو جو یہ تصنع تو اس سے کر
تس پر بھی تو چھپی نہیں رہتی بنائی بات

لگ کر تدرو رہ گئے دیوار باغ سے
رفتار کی جو تیری صبا نے چلائی بات

کہتے تھے اس سے ملیے تو کیا کیا نہ کہیے لیک
وہ آ گیا تو سامنے اس کے نہ آئی بات

اب تو ہوئے ہیں ہم بھی ترے ڈھب سے آشنا
واں تو نے کچھ کہا کہ ادھر ہم نے پائی بات

بلبل کے بولنے میں سب انداز ہیں مرے
پوشیدہ کب رہے ہے کسو کی اڑائی بات

بھڑکا تھا رات دیکھ کے وہ شعلہ خو مجھے
کچھ رو سیہ رقیب نے شاید لگائی بات

عالم سیاہ خانہ ہے کس کا کہ روز و شب
یہ شور ہے کہ دیتی نہیں کچھ سنائی بات

اک دن کہا تھا یہ کہ خموشی میں ہے وقار
سو مجھ سے ہی سخن نہیں میں جو بتائی بات

اب مجھ ضعیف و زار کو مت کچھ کہا کرو
جاتی نہیں ہے مجھ سے کسو کی اٹھائی بات

خط لکھتے لکھتے میرؔ نے دفتر کیے رواں
افراط اشتیاق نے آخر بڑھائی بات