EN हिंदी
ہونٹوں پہ قرض حرف وفا عمر بھر رہا | شیح شیری
honTon pe qarz-e-harf-e-wafa umr bhar raha

غزل

ہونٹوں پہ قرض حرف وفا عمر بھر رہا

اختر ہوشیارپوری

;

ہونٹوں پہ قرض حرف وفا عمر بھر رہا
مقروض تھا سو چپ کی صدا عمر بھر رہا

کچھ درگزر کی ان کو بھی عادت نہ تھی کبھی
کچھ میں بھی اپنی ضد پہ اڑا عمر بھر رہا

وہ تجربے ہوئے کہ مرے خوں کی خیر ہو
یارو میں اپنے گھر سے جدا عمر بھر رہا

موسم کا حبس شب کی سیاہی فصیل شہر
مجرم تھا سر جھکائے کھڑا عمر بھر رہا

صبح و مسا کی گردش پیہم کے باوجود
میں درمیان صبح و مسا عمر بھر رہا

ان بارشوں میں کون بہے خار و خس کے ساتھ
سورج کی لے کے سر پہ ردا عمر بھر رہا

ہاتھوں سے اوٹ کی تو سبھی انگلیاں جلیں
پھر بھی ہوا کی زد پہ دیا عمر بھر رہا

اک خون کی خلیج مرے سامنے رہی
اور میرے پیچھے سایہ مرا عمر بھر رہا

اخترؔ یہ جنگلوں میں اسی کے نشان ہیں
جو خار خار آبلہ پا عمر بھر رہا