EN हिंदी
ہونٹوں پہ محبت کے فسانے نہیں آتے | شیح شیری
honTon pe mohabbat ke fasane nahin aate

غزل

ہونٹوں پہ محبت کے فسانے نہیں آتے

بشیر بدر

;

ہونٹوں پہ محبت کے فسانے نہیں آتے
ساحل پہ سمندر کے خزانے نہیں آتے

پلکیں بھی چمک اٹھتی ہیں سونے میں ہماری
آنکھوں کو ابھی خواب چھپانے نہیں آتے

دل اجڑی ہوئی ایک سرائے کی طرح ہے
اب لوگ یہاں رات جگانے نہیں آتے

یارو نئے موسم نے یہ احسان کیے ہیں
اب یاد مجھے درد پرانے نہیں آتے

اڑنے دو پرندوں کو ابھی شوخ ہوا میں
پھر لوٹ کے بچپن کے زمانے نہیں آتے

اس شہر کے بادل تری زلفوں کی طرح ہیں
یہ آگ لگاتے ہیں بجھانے نہیں آتے

احباب بھی غیروں کی ادا سیکھ گئے ہیں
آتے ہیں مگر دل کو دکھانے نہیں آتے