EN हिंदी
ہونٹوں پہ ہنسی آنکھ میں تاروں کی لڑی ہے | شیح شیری
honTon pe hansi aankh mein taron ki laDi hai

غزل

ہونٹوں پہ ہنسی آنکھ میں تاروں کی لڑی ہے

قابل اجمیری

;

ہونٹوں پہ ہنسی آنکھ میں تاروں کی لڑی ہے
وحشت بڑے دلچسپ دوراہے پہ کھڑی ہے

دل رسم و رہ شوق سے مانوس تو ہو لے
تکمیل تمنا کے لیے عمر پڑی ہے

چاہا بھی اگر ہم نے تری بزم سے اٹھنا
محسوس ہوا پاؤں میں زنجیر پڑی ہے

آوارہ و رسوا ہی سہی ہم منزل شب میں
اک صبح بہاراں سے مگر آنکھ لڑی ہے

کیا نقش ابھی دیکھیے ہوتے ہیں نمایاں
حالات کے چہرے سے ذرا گرد جھڑی ہے

کچھ دیر کسی زلف کے سائے میں ٹھہر جائیں
قابلؔ غم دوراں کی ابھی دھوپ کڑی ہے