EN हिंदी
ہو گئے دن جنہیں بھلائے ہوئے | شیح شیری
ho gae din jinhen bhulae hue

غزل

ہو گئے دن جنہیں بھلائے ہوئے

انور شعور

;

ہو گئے دن جنہیں بھلائے ہوئے
آج کل ہیں وہ یاد آئے ہوئے

میں نے راتیں بہت گزاری ہیں
صرف دل کا دیا جلائے ہوئے

ایک اسی شخص کا نہیں مذکور
ہم زمانے کے ہیں ستائے ہوئے

سونے آتے ہیں لوگ بستی میں
سارے دن کے تھکے تھکائے ہوئے

مسکرائے بغیر بھی وہ ہونٹ
نظر آتے ہیں مسکرائے ہوئے

گو فلک پہ نہیں پلک پہ سہی
دو ستارے ہیں جگمگائے ہوئے

اے شعورؔ اور کوئی بات کرو
ہیں یہ قصے سنے سنائے ہوئے