EN हिंदी
ہر نالہ ترے درد سے اب اور ہی کچھ ہے | شیح شیری
har nala tere dard se ab aur hi kuchh hai

غزل

ہر نالہ ترے درد سے اب اور ہی کچھ ہے

فراق گورکھپوری

;

ہر نالہ ترے درد سے اب اور ہی کچھ ہے
ہر نغمہ سر بزم طرب اور ہی کچھ ہے

ارباب وفا جان بھی دینے کو ہیں تیار
ہستی کا مگر حسن طلب اور ہی کچھ ہے

یہ کام نہ لے نالہ و فریاد و فغاں سے
افلاک الٹ دینے کا ڈھب اور ہی کچھ ہے

اک سلسلۂ راز ہے جینا کہ ہو مرنا
جب اور ہی کچھ تھا مگر اب اور ہی کچھ ہے

کچھ مہر قیامت ہے نہ کچھ نار جہنم
ہشیار کہ وہ قہر و غضب اور ہی کچھ ہے

مذہب کی خرابی ہے نہ اخلاق کی پستی
دنیا کے مصائب کا سبب اور ہی کچھ ہے

بیہودہ سری سجدے میں ہے جان کھپانا
آئین محبت میں ادب اور ہی کچھ ہے

کیا حسن کے انداز تغافل کی شکایت
پیمان وفا عشق کا جب اور ہی کچھ ہے

دنیا کو جگا دے جو عدم کو بھی سلا دے
سنتے ہیں کہ وہ روز وہ شب اور ہی کچھ ہے

آنکھوں نے فراقؔ آج نہ پوچھو جو دکھایا
جو کچھ نظر آتا ہے وہ سب اور ہی کچھ ہے