EN हिंदी
ہر ایک پل کی اداسی کو جانتا ہے تو آ | شیح شیری
har ek pal ki udasi ko jaanta hai to aa

غزل

ہر ایک پل کی اداسی کو جانتا ہے تو آ

غلام محمد قاصر

;

ہر ایک پل کی اداسی کو جانتا ہے تو آ
مرے وجود کو تو دل سے مانتا ہے تو آ

وفا کے شہر میں اب لوگ جھوٹ بولتے ہیں
تو آ رہا ہے مگر سچ کو مانتا ہے تو آ

مرے دیئے نے اندھیرے سے دوستی کر لی
مجھے تو اپنے اجالے میں جانتا ہے تو آ

حیات صرف ترے موتیوں کا نام نہیں
دلوں کی بکھری ہوئی خاک چھانتا ہے تو آ

تو میرے گاؤں کے حصے کی چھاؤں بھی لے جا
مگر بدن پہ کبھی دھوپ تانتا ہے تو آ