EN हिंदी
ہمیں سے اپنی نوا ہم کلام ہوتی رہی | شیح شیری
hamin se apni nawa ham-kalam hoti rahi

غزل

ہمیں سے اپنی نوا ہم کلام ہوتی رہی

فیض احمد فیض

;

ہمیں سے اپنی نوا ہم کلام ہوتی رہی
یہ تیغ اپنے لہو میں نیام ہوتی رہی

مقابل صف اعدا جسے کیا آغاز
وہ جنگ اپنے ہی دل میں تمام ہوتی رہی

کوئی مسیحا نہ ایفائے عہد کو پہنچا
بہت تلاش پس قتل عام ہوتی رہی

یہ برہمن کا کرم وہ عطائے شیخ حرم
کبھی حیات کبھی مے حرام ہوتی رہی

جو کچھ بھی بن نہ پڑا فیضؔ لٹ کے یاروں سے
تو رہزنوں سے دعا و سلام ہوتی رہی