EN हिंदी
ہمارے واسطے ہے ایک جینا اور مر جانا | شیح شیری
hamare waste hai ek jina aur mar jaana

غزل

ہمارے واسطے ہے ایک جینا اور مر جانا

تلوک چند محروم

;

ہمارے واسطے ہے ایک جینا اور مر جانا
کہ ہم نے زندگی کو جادۂ راہ سفر جانا

یکایک منزل آفات عالم سے گزر جانا
ڈریں کیوں موت سے جب ہے اسی کا نام مر جانا

تری نظروں سے گر جانا ترے دل سے اتر جانا
یہ وہ افتاد ہے جس سے بہت اچھا ہے مر جانا

جواب ابر نیساں تجھ کو ہم نے چشم تر جانا
کہ ہر اک قطرۂ اشک چکیدہ کو گہر جانا

تلاطم آرزو میں ہے نہ طوفاں جستجو میں ہے
جوانی کا گزر جانا ہے دریا کا اتر جانا

ہم اپنے رہزن و رہبر تھے لیکن سادہ لوحی سے
کسی کو راہزن سمجھے کسی کو راہبر جانا

میں ایسے راہ رو کی جستجو میں مر مٹا جس نے
تن خاکی کو راہ عشق میں گرد سفر جانا

لب بام آئے تم اور ان کے چہرے ہو گئے پھیکے
قمر نے تم کو خورشید اور ستاروں نے قمر جانا

نہ بھولے گا ہمیں محرومؔ صبح روز محشر تک
کسی کا موت کے آغوش میں وقت سحر جانا