EN हिंदी
ہمارے خون کے پیاسے پشیمانی سے مر جائیں | شیح شیری
hamare KHun ke pyase pashemani se mar jaen

غزل

ہمارے خون کے پیاسے پشیمانی سے مر جائیں

افضل خان

;

ہمارے خون کے پیاسے پشیمانی سے مر جائیں
اگر ہم ایک دن اپنی ہی نادانی سے مر جائیں

اذیت سے جنم لیتی سہولت راس آتی ہے
کوئی ایسی پڑے مشکل کہ آسانی سے مر جائیں

ادھوری سی نظر کافی ہے اس آئینہ داری پر
اگر ہم غور سے دیکھیں تو حیرانی سے مر جائیں

بنا رکھی ہیں دیواروں پہ تصویریں پرندوں کی
وگرنہ ہم تو اپنے گھر کی ویرانی سے مر جائیں

اگر وحشت کا یہ عالم رہا تو عین ممکن ہے
سکوں سے جیتے جیتے بھی پریشانی سے مر جائیں

کہیں ایسا نہ ہو یا رب کہ یہ ترسے ہوئے عابد
تری جنت میں اشیا کی فراوانی سے مر جائیں