EN हिंदी
ہم پر تمہاری چاہ کا الزام ہی تو ہے | شیح شیری
hum par tumhaari chah ka ilzam hi to hai

غزل

ہم پر تمہاری چاہ کا الزام ہی تو ہے

فیض احمد فیض

;

ہم پر تمہاری چاہ کا الزام ہی تو ہے
دشنام تو نہیں ہے یہ اکرام ہی تو ہے

کرتے ہیں جس پہ طعن کوئی جرم تو نہیں
شوق فضول و الفت ناکام ہی تو ہے

دل مدعی کے حرف ملامت سے شاد ہے
اے جان جاں یہ حرف ترا نام ہی تو ہے

دل ناامید تو نہیں ناکام ہی تو ہے
لمبی ہے غم کی شام مگر شام ہی تو ہے

دست فلک میں گردش تقدیر تو نہیں
دست فلک میں گردش ایام ہی تو ہے

آخر تو ایک روز کرے گی نظر وفا
وہ یار خوش خصال سر بام ہی تو ہے

بھیگی ہے رات فیضؔ غزل ابتدا کرو
وقت سرود درد کا ہنگام ہی تو ہے