EN हिंदी
ہم نہ ہوں گے تو ہمیں یاد کرو گے یارو | شیح شیری
hum na honge to hamein yaad karoge yaro

غزل

ہم نہ ہوں گے تو ہمیں یاد کرو گے یارو

خلیق قریشی

;

ہم نہ ہوں گے تو ہمیں یاد کرو گے یارو
تذکرے ہوں گے یہی جب بھی ملوگے یارو

ہم نے روداد وفا خود سے مرتب کی ہے
داستاں پھر یہ کبھی سن نہ سکو گے یارو

ہم نہ ہوں گے تو کسے پاؤ گے دل کا محرم
ہم نہ ہوں گے تو یہ دکھ کس سے کہو گے یارو

محفلیں یونہی رہیں گی یونہی یاروں کے ہجوم
لیکن اک بات جسے پھر نہ سنو گے یارو

ہم سے زندہ ہے رہ و رسم محبت اب تک
اس کو جاں دے کے کہاں زندہ رکھوگے یارو

ہم نے ہر بار حوادث کی کلائی موڑی
تم انہیں کس طرح مغلوب کرو گے یارو

ذکر ہوگا لب ایام پہ اکثر اپنا
تم ہمیں مصحف عالم میں پڑھو گے یارو

وقت پوجے گا ہمیں وقت ہمیں ڈھونڈے گا
اور تم وقت کے ہمراہ چلو گے یارو

ہمیں تاریخ زمانہ کے مرتب ہیں خلیقؔ
ہمیں تاریخ میں اک روز کہو گے یارو