EN हिंदी
ہے تنہائی میں بہنا آنسوؤں کا | شیح شیری
hai tanhai mein bahna aansuon ka

غزل

ہے تنہائی میں بہنا آنسوؤں کا

حسن اکبر کمال

;

ہے تنہائی میں بہنا آنسوؤں کا
سبب چہروں کی ان شادابیوں کا

بظاہر میں بھی خوش اور تو بھی مسرور
مگر دیکھے کوئی عالم دلوں کا

وفا پرچھائیں کی اندھی پرستش
محبت نام ہے محرومیوں کا

ہے اپنی زندگی جتنا پرانا
تعلق آنکھ سے ویرانیوں کا

ہر اک چہرے پہ ہے تحریر غم کی
ضروری تو نہیں کھلنا لبوں کا

یہ میں ہوں یا کوئی معصوم بچہ
تعاقب کر رہا ہے تتلیوں کا

کمالؔ اب خود بھٹکتا پھر رہا ہے
تمنائی تھا اڑتی خوشبوؤں کا