EN हिंदी
ہے غزل میرؔ یہ شفائیؔ کی | شیح شیری
hai ghazal mir ye shifai ki

غزل

ہے غزل میرؔ یہ شفائیؔ کی

میر تقی میر

;

ہے غزل میرؔ یہ شفائیؔ کی
ہم نے بھی طبع آزمائی کی

اس کے ایفائے عہد تک نہ جیے
عمر نے ہم سے بے وفائی کی

وصل کے دن کی آرزو ہی رہی
شب نہ آخر ہوئی جدائی کی

اسی تقریب اس گلی میں رہے
منتیں ہیں شکستہ پائی کی

دل میں اس شوخ کے نہ کی تاثیر
آہ نے آہ نارسائی کی

کاسۂ چشم لے کے جوں نرگس
ہم نے دیدار کی گدائی کی

زور و زر کچھ نہ تھا تو بار میرؔ
کس بھروسے پر آشنائی کی