EN हिंदी
ہاتھ چھوٹیں بھی تو رشتے نہیں چھوڑا کرتے | شیح شیری
hath chhuTen bhi to rishte nahin chhoDa karte

غزل

ہاتھ چھوٹیں بھی تو رشتے نہیں چھوڑا کرتے

گلزار

;

ہاتھ چھوٹیں بھی تو رشتے نہیں چھوڑا کرتے
وقت کی شاخ سے لمحے نہیں توڑا کرتے

جس کی آواز میں سلوٹ ہو نگاہوں میں شکن
ایسی تصویر کے ٹکڑے نہیں جوڑا کرتے

لگ کے ساحل سے جو بہتا ہے اسے بہنے دو
ایسے دریا کا کبھی رخ نہیں موڑا کرتے

جاگنے پر بھی نہیں آنکھ سے گرتیں کرچیں
اس طرح خوابوں سے آنکھیں نہیں پھوڑا کرتے

شہد جینے کا ملا کرتا ہے تھوڑا تھوڑا
جانے والوں کے لیے دل نہیں تھوڑا کرتے

جا کے کہسار سے سر مارو کہ آواز تو ہو
خستہ دیواروں سے ماتھا نہیں پھوڑا کرتے