EN हिंदी
گھوم رہا تھا ایک شخص رات کے خارزار میں | شیح شیری
ghum raha tha ek shaKHs raat ke Khaarzar mein

غزل

گھوم رہا تھا ایک شخص رات کے خارزار میں

عادل منصوری

;

گھوم رہا تھا ایک شخص رات کے خارزار میں
اس کا لہو بھی مر گیا صبح کے انتظار میں

روح کی خشک پتیاں شاخ سے ٹوٹتی رہیں
اور گھٹا برس گئی جسم کے ریگزار میں

رنگ میں رنگ گھل گئے عکس کے شیشے دھل گئے
قوس قزح پگھل گئی بھیگی ہوئی لگار میں

ٹھنڈی سڑک تھی بے خبر گرم دنوں کے قہر سے
دھوپ کو جھیلتے رہے پیڑ کھڑے قطار میں

بہتی ہوا کی موج میں تیر رہے تھے سبز گھر
شہر عجیب سا لگا رات چڑھے خمار میں

نیند بھی جاگتی رہی پورے ہوئے نہ خواب بھی
صبح ہوئی زمین پر رات ڈھلی مزار میں

دیتا جواب کیا کوئی میرے سوا نہ تھا کوئی
ڈوب کے رہ گئی صدا تنگ سیاہ غار میں