EN हिंदी
گر غیر کے گھر سے نہ دل آرام نکلتا | شیح شیری
gar ghair ke ghar se na dil-aram nikalta

غزل

گر غیر کے گھر سے نہ دل آرام نکلتا

مومن خاں مومن

;

گر غیر کے گھر سے نہ دل آرام نکلتا
دم کاہے کو یوں اے دل ناکام نکلتا

میں وہم سے مرتا ہوں وہاں رعب سے اس کے
قاصد کی زباں سے نہیں پیغام نکلتا

کرتے جو مجھے یاد شب وصل عدو تم
کیا صبح کہ خورشید نہ تا شام نکلتا

جب جانتے تاثیر کہ دشمن بھی وہاں سے
اپنی طرح اے گردش ایام نکلتا

ہر ایک سے اس بزم میں شب پوچھتے تھے نام
تھا لطف جو کوئی مرا ہم نام نکلتا

کیوں کام طلب ہے مرے آزار سے گردوں
ناکام سے دیکھا ہے کہیں کام نکلتا

تھی نوحہ زنی دل کی جنازے پہ ضروری
شاید کہ وہ گھبرا کے سر بام نکلتا

کانٹا سا کھٹکتا ہے کلیجے میں غم ہجر
یہ خار نہیں دل سے گل اندام نکلتا

حوریں نہیں مومنؔ کے نصیبوں میں جو ہویں
بت خانے ہی سے کیوں یہ بد انجام نکلتا