EN हिंदी
غم حیات کہانی ہے قصہ خواں ہوں میں | شیح شیری
gham-e-hayat kahani hai qissa-KHwan hun main

غزل

غم حیات کہانی ہے قصہ خواں ہوں میں

اختر انصاری

;

غم حیات کہانی ہے قصہ خواں ہوں میں
دل ستم زدہ ہے رازداں ہوں میں

زیادہ اس سے کوئی آج تک بتا نہ سکا
کہ ایک نکتۂ ناقابل بیاں ہوں میں

نظر کے سامنے کوندی تھی ایک بجلی سی
مجھے بتاؤ خدارا کہ اب کہاں ہوں میں

خزاں نے لوٹ لیا گلشن شباب مگر
کسی بہار کے ارمان میں جواں ہوں میں

یہ کہہ رہی ہے نظر کی غم آفریں جنبش
کسی کے دل کی تباہی کی داستاں ہوں میں

خزاں کہتی تھی میں شوخی بہاراں ہوں
بہار کہتی ہے رنگینی خزاں ہوں میں

شباب نام ہے اس جاں نواز لمحے کا
جب آدمی کو یہ محسوس ہو جواں ہوں میں

جہان درد و الم پوجتا ہے مجھ کو آہ
تپش جبیں ہے لہو سجدہ آستاں ہوں میں

وہ دن بھی تھے کہ میں جان شباب تھا اخترؔ
اب اپنے عہد جوانی کی داستاں ہوں میں