EN हिंदी
گلی گلی مری یاد بچھی ہے پیارے رستہ دیکھ کے چل | شیح شیری
gali gali meri yaad bichhi hai pyare rasta dekh ke chal

غزل

گلی گلی مری یاد بچھی ہے پیارے رستہ دیکھ کے چل

ناصر کاظمی

;

گلی گلی مری یاد بچھی ہے پیارے رستہ دیکھ کے چل
مجھ سے اتنی وحشت ہے تو میری حدوں سے دور نکل

ایک سمے ترا پھول سا نازک ہاتھ تھا میرے شانوں پر
ایک یہ وقت کہ میں تنہا اور دکھ کے کانٹوں کا جنگل

یاد ہے اب تک تجھ سے بچھڑنے کی وہ اندھیری شام مجھے
تو خاموش کھڑا تھا لیکن باتیں کرتا تھا کاجل

میں تو ایک نئی دنیا کی دھن میں بھٹکتا پھرتا ہوں
میری تجھ سے کیسے نبھے گی ایک ہیں تیرے فکر و عمل

میرا منہ کیا دیکھ رہا ہے دیکھ اس کالی رات کو دیکھ
میں وہی تیرا ہم راہی ہوں ساتھ مرے چلنا ہو تو چل