EN हिंदी
فصیل جسم پہ شب خوں شرارتیں تیری | شیح شیری
fasil-e-jism pe shab-KHun shararten teri

غزل

فصیل جسم پہ شب خوں شرارتیں تیری

انجم عرفانی

;

فصیل جسم پہ شب خوں شرارتیں تیری
ذرا سی بھی نہیں بدلی ہیں عادتیں تیری

یہ زخم زخم بدن اور لہو لہو یہ خواب
کتاب جسم پہ اتری ہیں آیتیں تیری

حصار آتش نمرود میں گھرا ہوں میں
اب اتنی سست قدم کیوں ہیں رحمتیں تیری

چراغ چاند شفق شام پھول جھیل صبا
چرائیں سب نے ہی کچھ کچھ شباہتیں تیری

یہ موج موج لہو میں ترے بدن کا نشہ
تلاش کرتا ہے ہر لمحہ قربتیں تیری

اے رشک سرو و صنوبر قداں خرام ناز
کہ راہ دیکھ رہی ہیں قیامتیں تیری

مری ہوس کے سمندر میں مد و جزر نہیں
پئے زوال نہ ہوں چاند چاہتیں تیری

اکھڑنے والی تھی جس دم طناب سانسوں کی
در آئیں خیمۂ دل میں بشارتیں تیری

اسے سنبھال، ہوا جا رہا ہے زیر و زبر
کہ دل پہ لائی ہوئی سب ہیں آفتیں تیری

ادا ہوا نہ کبھی مجھ سے ایک سجدۂ شکر
میں کس زباں سے کروں گا شکایتیں تیری

وہ آنکھوں آنکھوں میں راتوں کا کاٹنا تیرا
وہ باتوں باتوں میں انجمؔ عبادتیں تیری