EN हिंदी
فلک دیتا ہے جن کو عیش ان کو غم بھی ہوتے ہیں | شیح شیری
falak deta hai jinko aish un ko gham bhi hote hain

غزل

فلک دیتا ہے جن کو عیش ان کو غم بھی ہوتے ہیں

داغؔ دہلوی

;

فلک دیتا ہے جن کو عیش ان کو غم بھی ہوتے ہیں
جہاں بجتے ہیں نقارے وہیں ماتم بھی ہوتے ہیں

گلے شکوے کہاں تک ہوں گے آدھی رات تو گزری
پریشاں تم بھی ہوتے ہو پریشاں ہم بھی ہوتے ہیں

جو رکھے چارہ گر کافور دونی آگ لگ جائے
کہیں یہ زخم دل شرمندہ مرہم بھی ہوتے ہیں

وہ آنکھیں سامری فن ہیں وہ لب عیسیٰ نفس دیکھو
مجھی پر سحر ہوتے ہیں مجھی پر دم بھی ہوتے ہیں

زمانہ دوستی پر ان حسینوں کی نہ اترائے
یہ عالم دوست اکثر دشمن عالم بھی ہوتے ہیں

بظاہر رہنما ہیں اور دل میں بدگمانی ہے
ترے کوچے میں جو جاتا ہے آگے ہم بھی ہوتے ہیں

ہمارے آنسوؤں کی آبداری اور ہی کچھ ہے
کہ یوں ہونے کو روشن گوہر شبنم بھی ہوتے ہیں

خدا کے گھر میں کیا ہے کام زاہد بادہ خواروں کا
جنہیں ملتی نہیں وہ تشنۂ زمزم بھی ہوتے ہیں

ہمارے ساتھ ہی پیدا ہوا ہے عشق اے ناصح
جدائی کس طرح سے ہو جدا توام بھی ہوتے ہیں

نہیں گھٹتی شب فرقت بھی اکثر ہم نے دیکھا ہے
جو بڑھ جاتے ہیں حد سے وہ ہی گھٹ کر کم بھی ہوتے ہیں

بچاؤں پیرہن کیا چارہ گر میں دست وحشت سے
کہیں ایسے گریباں دامن مریم بھی ہوتے ہیں

طبیعت کی کجی ہرگز مٹائے سے نہیں مٹتی
کبھی سیدھے تمہارے گیسوئے پر خم بھی ہوتے ہیں

جو کہتا ہوں کہ مرتا ہوں تو فرماتے ہیں مر جاؤ
جو غش آتا ہے تو مجھ پر ہزاروں دم بھی ہوتے ہیں

کسی کا وعدۂ دیدار تو اے داغؔ برحق ہے
مگر یہ دیکھیے دل شاد اس دن ہم بھی ہوتے ہیں