EN हिंदी
ایک قطرہ اشک کا چھلکا تو دریا کر دیا | شیح شیری
ek qatra ashk ka chhalka to dariya kar diya

غزل

ایک قطرہ اشک کا چھلکا تو دریا کر دیا

عادل منصوری

;

ایک قطرہ اشک کا چھلکا تو دریا کر دیا
ایک مشت خاک جو بکھری تو صحرا کر دیا

میرے ٹوٹے حوصلے کے پر نکلتے دیکھ کر
اس نے دیواروں کو اپنی اور اونچا کر دیا

واردات قلب لکھی ہم نے فرضی نام سے
اور ہاتھوں ہاتھ اس کو خود ہی لے جا کر دیا

اس کی ناراضی کا سورج جب سوا نیزے پہ تھا
اپنے حرف عجز ہی نے سر پہ سایہ کر دیا

دنیا بھر کی خاک کوئی چھانتا پھرتا ہے اب
آپ نے در سے اٹھا کر کیسا رسوا کر دیا

اب نہ کوئی خوف دل میں اور نہ آنکھوں میں امید
تو نے مرگ ناگہاں بیمار اچھا کر دیا

بھول جا یہ کل ترے نقش قدم تھے چاند پر
دیکھ ان ہاتھوں کو کس نے آج کاسہ کر دیا

ہم تو کہنے جا رہے تھے ہمزۂ یے والسلام
بیچ میں اس نے اچانک نون غنہ کر دیا

ہم کو گالی کے لیے بھی لب ہلا سکتے نہیں
غیر کو بوسہ دیا تو منہ سے دکھلا کر دیا

تیرگی کی بھی کوئی حد ہوتی ہے آخر میاں
سرخ پرچم کو جلا کر ہی اجالا کر دیا

بزم میں اہل سخن تقطیع فرماتے رہے
اور ہم نے اپنے دل کا بوجھ ہلکا کر دیا

جانے کس کے منتظر بیٹھے ہیں جھاڑو پھیر کر
دل سے ہر خواہش کو عادلؔ ہم نے چلتا کر دیا