EN हिंदी
ایک ہی بار نہیں ہے وہ دوبارہ کم ہے | شیح شیری
ek hi bar nahin hai wo dobara kam hai

غزل

ایک ہی بار نہیں ہے وہ دوبارہ کم ہے

ظفر اقبال

;

ایک ہی بار نہیں ہے وہ دوبارہ کم ہے
میں وہ دریا ہوں جسے اپنا کنارہ کم ہے

وہی تکرار ہے اور ایک وہی یکسانی
اس شب و روز میں اب اپنا گزارہ کم ہے

میرے دن رات میں کرنا نہیں اب اس کو شمار
حصۂ عمر کوئی میں نے گزارا کم ہے

میں زیادہ ہوں بہت اس کے لیے اب تک بھی
اور میرے لیے وہ سارے کا سارا کم ہے

اس کی اپنی بھی توجہ نہیں مجھ پر کوئی خاص
اور میں نے بھی ابھی اس کو پکارا کم ہے

آج پانی جو اچھلتا نہیں پہلے کی طرح
ایسا لگتا ہے کہ اس میں کوئی دھارا کم ہے

ہاتھ پیر آپ ہی میں مار رہا ہوں فی الحال
ڈوبتے کو ابھی تنکے کا سہارا کم ہے

میں تو رکھتا ہوں بہت روز کے روز ان کا حساب
آسماں پر کوئی آج ایک ستارہ کم ہے

پیش رفت اور ابھی ممکن بھی نہیں ہے کہ ظفرؔ
ابھی اس شوخ پہ کچھ زور ہمارا کم ہے