EN हिंदी
دور افق کے پار سے آواز کے پروردگار | شیح شیری
dur ufuq ke par se aawaz ke parwardigar

غزل

دور افق کے پار سے آواز کے پروردگار

عادل منصوری

;

دور افق کے پار سے آواز کے پروردگار
صدیوں سوئی خامشی کو سامنے آ کر پکار

جانے کن ہاتھوں نے کھیلا رات ساحل پر شکار
شیر کی آواز کو ترسا کئے سونے کچھار

خواب کے سوکھے ہوئے خاکوں میں لذت کا غبار
نیند کے دیمک زدہ گتے کے پیچھے انتظار

تیرگی کیسے مٹے گی تیری نصرت کے بغیر
آسماں کی سیڑھیوں سے نقرئی فوجیں اتار

آخر شب سب ستارے سو رہے ہیں بے خبر
کوئی سورج کو خبر کر دو کہ اب شب خون مار

پھیلتا جاتا ہے کرنوں کا سنہری جال پھر
جگمگا اٹھی ہیں شمشیریں قطار اندر قطار

جانے کس کو ڈھونڈنے داخل ہوا ہے جسم میں
ہڈیوں میں راستہ کرتا ہوا پیلا بخار

جسم کی مٹی نہ لے جائے بہا کر ساتھ میں
دل کی گہرائی میں گرتا خواہشوں کا آبشار