EN हिंदी
دن کچھ ایسے گزارتا ہے کوئی | شیح شیری
din kuchh aise guzarta hai koi

غزل

دن کچھ ایسے گزارتا ہے کوئی

گلزار

;

دن کچھ ایسے گزارتا ہے کوئی
جیسے احساں اتارتا ہے کوئی

دل میں کچھ یوں سنبھالتا ہوں غم
جیسے زیور سنبھالتا ہے کوئی

آئنہ دیکھ کر تسلی ہوئی
ہم کو اس گھر میں جانتا ہے کوئی

پیڑ پر پک گیا ہے پھل شاید
پھر سے پتھر اچھالتا ہے کوئی

دیر سے گونجتے ہیں سناٹے
جیسے ہم کو پکارتا ہے کوئی