EN हिंदी
دل مرا جس سے بہلتا کوئی ایسا نہ ملا | شیح شیری
dil mera jis se bahalta koi aisa na mila

غزل

دل مرا جس سے بہلتا کوئی ایسا نہ ملا

اکبر الہ آبادی

;

دل مرا جس سے بہلتا کوئی ایسا نہ ملا
بت کے بندے ملے اللہ کا بندا نہ ملا

بزم یاراں سے پھری باد بہاری مایوس
ایک سر بھی اسے آمادۂ سودا نہ ملا

گل کے خواہاں تو نظر آئے بہت عطر فروش
طالب زمزمۂ بلبل شیدا نہ ملا

واہ کیا راہ دکھائی ہے ہمیں مرشد نے
کر دیا کعبے کو گم اور کلیسا نہ ملا

رنگ چہرے کا تو کالج نے بھی رکھا قائم
رنگ باطن میں مگر باپ سے بیٹا نہ ملا

سید اٹھے جو گزٹ لے کے تو لاکھوں لائے
شیخ قرآن دکھاتے پھرے پیسا نہ ملا

ہوشیاروں میں تو اک اک سے سوا ہیں اکبرؔ
مجھ کو دیوانوں میں لیکن کوئی تجھ سا نہ ملا