EN हिंदी
دل میں اک تصویر چھپی تھی آن بسی ہے آنکھوں میں | شیح شیری
dil mein ek taswir chhupi thi aan basi hai aankhon mein

غزل

دل میں اک تصویر چھپی تھی آن بسی ہے آنکھوں میں

بشیر بدر

;

دل میں اک تصویر چھپی تھی آن بسی ہے آنکھوں میں
شاید ہم نے آج غزل سی بات لکھی ہے آنکھوں میں

جیسے اک ہریجن لڑکی مندر کے دروازے پر
شام دیوں کی تھال سجائے جھانک رہی ہے آنکھوں میں

اس رومال کو کام میں لاؤ اپنی پلکیں صاف کرو
میلا میلا چاند نہیں ہے دھول جمی ہے آنکھوں میں

پڑھتا جا یہ منظر نامہ زرد عظیم پہاڑوں کا
دھوپ کھلی پلکوں کے اوپر برف جمی ہے آنکھوں میں

میں نے اک ناول لکھا ہے آنے والی صبح کے نام
کتنی راتوں کا جاگا ہوں نیند بھری ہے آنکھوں میں