EN हिंदी
دل کو سکون روح کو آرام آ گیا | شیح شیری
dil ko sukun ruh ko aaram aa gaya

غزل

دل کو سکون روح کو آرام آ گیا

جگر مراد آبادی

;

دل کو سکون روح کو آرام آ گیا
موت آ گئی کہ دوست کا پیغام آ گیا

جب کوئی ذکر گردش آیام آ گیا
بے اختیار لب پہ ترا نام آ گیا

غم میں بھی ہے سرور وہ ہنگام آ گیا
شاید کہ دور بادۂ گلفام آ گیا

دیوانگی ہو عقل ہو امید ہو کہ یاس
اپنا وہی ہے وقت پہ جو کام آ گیا

دل کے معاملات میں ناصح شکست کیا
سو بار حسن پر بھی یہ الزام آ گیا

صیاد شادماں ہے مگر یہ تو سوچ لے
میں آ گیا کہ سایہ تہ دام آ گیا

دل کو نہ پوچھ معرکۂ حسن و عشق میں
کیا جانیے غریب کہاں کام آ گیا

یہ کیا مقام عشق ہے ظالم کہ ان دنوں
اکثر ترے بغیر بھی آرام آ گیا

احباب مجھ سے قطع تعلق کریں جگرؔ
اب آفتاب زیست لب بام آ گیا