EN हिंदी
دل کی آگ جوانی کے رخساروں کو دہکائے ہے | شیح شیری
dil ki aag jawani ke ruKHsaron ko dahkae hai

غزل

دل کی آگ جوانی کے رخساروں کو دہکائے ہے

علی سردار جعفری

;

دل کی آگ جوانی کے رخساروں کو دہکائے ہے
بہے پسینہ مکھڑے پر یا سورج پگھلا جائے ہے

من اک ننھا سا بالک ہے ہمک ہمک رہ جائے ہے
دور سے مکھ کا چاند دکھا کر کون اسے للچائے ہے

مے ہے تیری آنکھوں میں اور مجھ پہ نشہ سا طاری ہے
نیند ہے تیری پلکوں میں اور خواب مجھے دکھلائے ہے

تیرے قامت کی لرزش سے موج مے میں لرزش ہے
تیری نگہ کی مستی ہی پیمانوں کو چھلکائے ہے

تیرا درد سلامت ہے تو مرنے کی امید نہیں
لاکھ دکھی ہو یہ دنیا رہنے کی جگہ بن جائے ہے