دل دیوانہ و انداز بیباکانہ رکھتے ہیں
گدائے مے کدہ ہیں وضع آزادانہ رکھتے ہیں
مجھے مے خانہ تھراتا ہوا محسوس ہوتا ہے
وہ میرے سامنے شرما کے جب پیمانہ رکھتے ہیں
گھٹائیں بھی تو بہکی جا رہی ہیں ان اداؤں پر
چمن میں جو قدم رکھتے ہیں وہ مستانہ رکھتے ہیں
بظاہر ہم ہیں بلبل کی طرح مشہور ہرجائی
مگر دل میں گداز فطرت پروانہ رکھتے ہیں
جوانی بھی تو اک موج شراب تند و رنگیں ہے
برا کیا ہے اگر ہم مشرب رندانہ رکھتے ہیں
کسی مغرور کے آگے ہمارا سر نہیں جھکتا
فقیری میں بھی اخترؔ غیرت شاہانہ رکھتے ہیں
غزل
دل دیوانہ و انداز بیباکانہ رکھتے ہیں
اختر شیرانی