EN हिंदी
دیکھا ہوا سا کچھ ہے تو سوچا ہوا سا کچھ | شیح شیری
dekha hua sa kuchh hai to socha hua sa kuchh

غزل

دیکھا ہوا سا کچھ ہے تو سوچا ہوا سا کچھ

ندا فاضلی

;

دیکھا ہوا سا کچھ ہے تو سوچا ہوا سا کچھ
ہر وقت میرے ساتھ ہے الجھا ہوا سا کچھ

ہوتا ہے یوں بھی راستہ کھلتا نہیں کہیں
جنگل سا پھیل جاتا ہے کھویا ہوا سا کچھ

ساحل کی گیلی ریت پر بچوں کے کھیل سا
ہر لمحہ مجھ میں بنتا بکھرتا ہوا سا کچھ

فرصت نے آج گھر کو سجایا کچھ اس طرح
ہر شے سے مسکراتا ہے روتا ہوا سا کچھ

دھندلی سی ایک یاد کسی قبر کا دیا
اور میرے آس پاس چمکتا ہوا سا کچھ