EN हिंदी
دور ساغر کا چلے ساقی دوبارا ایک اور | شیح شیری
daur saghar ka chale saqi dobara ek aur

غزل

دور ساغر کا چلے ساقی دوبارا ایک اور

آغا اکبرآبادی

;

دور ساغر کا چلے ساقی دوبارا ایک اور
ابر کعبہ سے اٹھا ہے مان کہنا ایک اور

جھومتا آتا ہے وہ بادل کا ٹکڑا ایک اور
ساقیا بھر کر پلا دے جام صہبا ایک اور

دن کو جو کچھ تم نے دیکھا یہ تو تھی سب دل لگی
شب کو رہ جاؤ تو دکھلائیں تماشا ایک اور

میں انہیں کہتا ہوں تم بے درد ہو نا آشنا
وہ لگاتے ہیں مجھے الزام الٹا ایک اور

دل کو نفرت ہو گئی نظروں سے آخر گر گئے
تم سے بہتر اپنی آنکھوں میں سمایا ایک اور

کیوں سسکتا چھوڑے جاتے ہو مجھے مقتل میں تم
فیصلہ کر دوں میں قرباں دے کے چرکا ایک اور

تیرے آنے میں توقف جب ہوا اے نامہ بر
خط انہیں بے چین ہو کر ہم نے لکھا ایک اور

بند محرم کے کھلے کچھ بے حجابی ہو چکی
وہ بھی اب اٹھ جائے جو باقی ہے پردا ایک اور

دوست دشمن ہو گئے یاروں نے آنکھیں پھیر لیں
رہ گیا ہے آپ کا مجھ کو بھروسا ایک اور

وصل کی شب میں کیا مرغ سحر کا بند و بست
نعرۂ اللہ اکبر کا ہے دھڑکا ایک اور

ہو چکا ذکر دہن وصف کمر لکھتے ہیں ہم
دام میں صیاد کے پھنستا ہے عنقا ایک اور

صید کی کثرت سے آغاؔ بن پڑی صیاد کی
دو نے گر پائی رہائی آ کے الجھا ایک اور