EN हिंदी
دروازہ بند دیکھ کے میرے مکان کا | شیح شیری
darwaza band dekh ke mere makan ka

غزل

دروازہ بند دیکھ کے میرے مکان کا

عادل منصوری

;

دروازہ بند دیکھ کے میرے مکان کا
جھونکا ہوا کا کھڑکی کے پردے ہلا گیا

وہ جان نو بہار جدھر سے گزر گیا
پیڑوں نے پھول پتوں سے رستہ چھپا لیا

اس کے قریب جانے کا انجام یہ ہوا
میں اپنے آپ سے بھی بہت دور جا پڑا

انگڑائی لے رہی تھی گلستاں میں جب بہار
ہر پھول اپنے رنگ کی آتش میں جل گیا

کانٹے سے ٹوٹتے ہیں مرے انگ انگ میں
رگ رگ میں چاند جلتا ہوا زہر بھر گیا

آنکھوں نے اس کو دیکھا نہیں اس کے باوجود
دل اس کی یاد سے کبھی غافل نہیں رہا

دروازہ کھٹکھٹا کے ستارے چلے گئے
خوابوں کی شال اوڑھ کے میں اونگھتا رہا

شب چاندنی کی آنچ میں تپ کر نکھر گئی
سورج کی جلتی آگ میں دن خاک ہو گیا

سڑکیں تمام دھوپ سے انگارہ ہو گئیں
اندھی ہوائیں چلتی ہیں ان پر برہنہ پا

وہ آئے تھوڑی دیر رکے اور چلے گئے
عادلؔ میں سر جھکائے ہوئے چپ کھڑا رہا