EN हिंदी
دریا ہو یا پہاڑ ہو ٹکرانا چاہئے | شیح شیری
dariya ho ya pahaD ho Takrana chahiye

غزل

دریا ہو یا پہاڑ ہو ٹکرانا چاہئے

ندا فاضلی

;

دریا ہو یا پہاڑ ہو ٹکرانا چاہئے
جب تک نہ سانس ٹوٹے جیے جانا چاہئے

یوں تو قدم قدم پہ ہے دیوار سامنے
کوئی نہ ہو تو خود سے الجھ جانا چاہئے

جھکتی ہوئی نظر ہو کہ سمٹا ہوا بدن
ہر رس بھری گھٹا کو برس جانا چاہئے

چوراہے باغ بلڈنگیں سب شہر تو نہیں
کچھ ایسے ویسے لوگوں سے یارانا چاہئے

اپنی تلاش اپنی نظر اپنا تجربہ
رستہ ہو چاہے صاف بھٹک جانا چاہئے

چپ چپ مکان راستے گم سم نڈھال وقت
اس شہر کے لیے کوئی دیوانا چاہئے

بجلی کا قمقمہ نہ ہو کالا دھواں تو ہو
یہ بھی اگر نہیں ہو تو بجھ جانا چاہئے