EN हिंदी
درد کو ضبط کی سرحد سے گزر جانے دو | شیح شیری
dard ko zabt ki sarhad se guzar jaane do

غزل

درد کو ضبط کی سرحد سے گزر جانے دو

ذاکر خان ذاکر

;

درد کو ضبط کی سرحد سے گزر جانے دو
اب سمیٹو نہ ہمیں اور بکھر جانے دو

ہم سے ہوگا نہ کبھی اپنی خودی کا سودا
ہم اگر دل سے اترتے ہیں اتر جانے دو

تم تعین نہ کرو اپنی حدوں کا ہرگز
جب بھی جیسے بھی جہاں جائے نظر جانے دو

اتنا کافی ہے کہ وہ ساتھ نہیں ہے میرے
کیوں ہوا کیسے ہوا چاک جگر جانے دو

دل جلاؤ کہ تخیل کا جہاں روشن ہو
تیرگی ختم کرو رات سنور جانے دو

عشق ثانی ہے تو پھر اس میں شکایت کیسی
ہم نہ کہتے تھے کہ اک زخم ہے بھر جانے دو

یار معمول پہ لوٹ آئیں گے کچھ صبر کرو
اس فسوں گر کی نگاہوں کا اثر جانے دو

شرط جینا ہے بھٹکنا تو بہانہ ہے فقط
وہ جدھر جاتا ہے ہر شام و سحر جانے دو

میں نے روکا تھا اسے اس کا حوالہ دے کر
روٹھ کر پھر بھی وہ جاتا ہے اگر جانے دو

خوش گماں ہے وہ بہت جیت پہ اپنی ذاکرؔ
ہم بھی چل سکتے تھے اک چال مگر جانے دو