EN हिंदी
چھپ کے اس نے جو خود نمائی کی | شیح شیری
chhup ke usne jo KHud-numai ki

غزل

چھپ کے اس نے جو خود نمائی کی

حسرتؔ موہانی

;

چھپ کے اس نے جو خود نمائی کی
انتہا تھی یہ دل ربائی کی

مائل غمزہ ہے وہ چشم سیاہ
اب نہیں خیر پارسائی کی

ہم سے کیونکر وہ آستانہ چھٹے
مدتوں جس پہ جبہ سائی کی

دل نے برسوں بہ جستجوئے کمال
کوچۂ عشق میں گدائی کی

دام سے ان کے چھوٹنا تو کہاں
یاں ہوس بھی نہیں رہائی کی

کیا کیا یہ کہ اہل شوق کے ساتھ
تو نے کی بھی تو بے وفائی کی

ہو کے نادم وہ بیٹھے ہیں خاموش
صلح میں شان ہے لڑائی کی

اس تغافل شعار سے حسرتؔ
ہم میں طاقت نہیں جدائی کی