EN हिंदी
چراغ یاد کی لو ہم سفر کہاں تک ہے | شیح شیری
charagh-e-yaad ki lau ham-safar kahan tak hai

غزل

چراغ یاد کی لو ہم سفر کہاں تک ہے

سلیم کوثر

;

چراغ یاد کی لو ہم سفر کہاں تک ہے
یہ روشنی مری دہلیز پر کہاں تک ہے

بس ایک تم تھے کہ جو دل کا حال جانتے تھے
سو اب تمہیں بھی ہماری خبر کہاں تک ہے

مسافران جنوں گرد ہو گئے لیکن
کھلا نہیں کہ تری رہ گزر کہاں تک ہے

ہر ایک لمحہ بدلتی ہوئی کہانی میں
حکایت غم دل معتبر کہاں تک ہے

زمیں کی آخری حد پر پہنچ کے سوچتا ہوں
یہاں سے موسم دیوار و در کہاں تک ہے

بچھڑنے والوں کو اندازہ ہی نہیں ہوتا
تو ہم سفر ہے مگر ہم سفر کہاں تک ہے

عجیب لوگ ہیں آزادیوں کے مارے ہوئے
قفس میں پوچھتے پھرتے ہیں گھر کہاں تک ہے