EN हिंदी
بت بنے راہ تکو گے کب تک | شیح شیری
but bane rah takoge kab tak

غزل

بت بنے راہ تکو گے کب تک

شہرت بخاری

;

بت بنے راہ تکو گے کب تک
آس کی آنچ سہو گے کب تک

سر اٹھا کر کبھی دیکھو تو سہی
دل کی دنیا میں بسو گے کب تک

جس نے اپنی بھی خبر لی نہ کبھی
تم اسے یاد کرو گے کب تک

ہم سفر ہو تو کوئی اپنا سا
چاند کے ساتھ چلو گے کب تک

کوئی پتا ہے نہ بوٹا ہے نہ گل
دشت کو باغ کہوگے کب تک

ہر طرف آگ برستی ہے یہاں
کس توقع پہ رہوگے کب تک

آندھیاں تیز ہوئی جاتی ہیں
گھر بلاتا ہے چلو گے کب تک

کوئی جا کر نہیں آتا شہرتؔ
صورت شمع گھلو گے کب تک