EN हिंदी
بھول کر بھی نہ پھر ملے گا تو | شیح شیری
bhul kar bhi na phir malega tu

غزل

بھول کر بھی نہ پھر ملے گا تو

عادل منصوری

;

بھول کر بھی نہ پھر ملے گا تو
جانتا ہوں یہی کرے گا تو

دیکھ آگے مہیب کھائی ہے
لوٹ آ ورنہ گر پڑے گا تو

دل کی تختی پہ نام ہے تیرا
یاں نہیں تو کہاں رہے گا تو

میرے آنگن میں ایک پودا ہے
پھول بن کے مہک اٹھے گا تو

راستے میں کئی دکانیں ہیں
ہر دکاں پر دکھائی دے گا تو

میں نے آنکھوں سے جیب بھر لی ہے
دیکھتا ہوں کہاں چھپے گا تو

خوش رکھیں گی یہ دوریاں تجھ کو
کیا یوں ہی مسکرا سکے گا تو