EN हिंदी
بسائی میں نے جو قلب حزیں میں | شیح شیری
basai maine jo qalb-e-hazin mein

غزل

بسائی میں نے جو قلب حزیں میں

ذوالفقار علی بخاری

;

بسائی میں نے جو قلب حزیں میں
وہ دنیا کام آئی کار دیں میں

وہی ہے اصل میں جان تمنا
جو حسرت ہے نگاہ واپسیں میں

ترے شوق سراپا کی کشش سے
سمٹ آیا ہوں میں اپنی جبیں میں

ہے پیچ و تاب میں ہر موج ساحل
وہ بیتابی ہے موج تہ نشیں میں

حقیقت ہے کہ ہو تم جان خوبی
کہ خوبی ہے وطن کی سرزمیں میں

محبت ہے کہ وہ عکس مسرت
اتر آیا مرے قلب حزیں میں

جنوں کے راج میں انصاف ہوگا
نہ ہوگا فرق جیب و آستیں میں

بہت کچھ پاؤ گے دنیا میں پیارے
محبت پاؤ گے لیکن ہمیں میں

بخاریؔ کی تڑپ حافظ کی مستی
تمہارے نغمۂ وجد آفریں میں