EN हिंदी
بس اس قدر ہے خلاصہ مری کہانی کا | شیح شیری
bas is qadar hai KHulasa meri kahani ka

غزل

بس اس قدر ہے خلاصہ مری کہانی کا

عبد الحمید عدم

;

بس اس قدر ہے خلاصہ مری کہانی کا
کہ بن کے ٹوٹ گیا اک حباب پانی کا

ملا ہے ساقی تو روشن ہوا ہے یہ مجھ پر
کہ حذف تھا کوئی ٹکڑا مری کہانی کا

مجھے بھی چہرے پہ رونق دکھائی دیتی ہے
یہ معجزہ ہے طبیبوں کی خوش بیانی کا

ہے دل میں ایک ہی خواہش وہ ڈوب جانے کی
کوئی شباب کوئی حسن ہے روانی کا

لباس حشر میں کچھ ہو تو اور کیا ہوگا
بجھا سا ایک چھناکا تری جوانی کا

کرم کے رنگ نہایت عجیب ہوتے ہیں
ستم بھی ایک طریقہ ہے مہربانی کا

عدمؔ بہار کے موسم نے خودکشی کر لی
کھلا جو رنگ کسی جسم ارغوانی کا