EN हिंदी
برکتیں سب ہیں عیاں دولت روحانی کی | شیح شیری
barkaten sab hain ayan daulat-e-ruhani ki

غزل

برکتیں سب ہیں عیاں دولت روحانی کی

حسرتؔ موہانی

;

برکتیں سب ہیں عیاں دولت روحانی کی
واہ کیا بات ہے اس چہرۂ نورانی کی

شوق دیکھے تجھے کس آنکھ سے اے مہر جمال
کچھ نہایت ہی نہیں تیری درخشانی کی

مجھ سے وہ سگ بھی ہے افضل جسے عزت ہو نصیب
آستان حرم یار پہ دربانی کی

جب سنا یاد کیا کرتے ہو تم بھی تو مجھے
کیا کہوں حد نہ رہی کچھ مری حیرانی کی

سعئ احباب کو ناحق ہے رہائی کا خیال
اور ہی کچھ ہے تمنا ترے زندانی کی

وہ تبسم بھی قیامت ہے ترا بعد جفا
تو نے دی ہو جسے خدمت نمک افشانی کی

مشکلوں سے جو مقابل ہوئی ہمت میری
قدر باقی نہ رہی عیش تن آسانی کی

رہ گیا جل کے تری بزم میں پروانہ جو رات
کھینچ گئی شکل مری سوختہ سامانی کی

رشک شاہی ہو نہ کیوں اپنی فقیری حسرتؔ
کب سے کرتے ہیں غلامی شہ جیلانیؔ کی