EN हिंदी
بات یہ ہے کہ کوئی بات پرانی بھی نہیں | شیح شیری
baat ye hai ki koi baat purani bhi nahin

غزل

بات یہ ہے کہ کوئی بات پرانی بھی نہیں

خالد کرار

;

بات یہ ہے کہ کوئی بات پرانی بھی نہیں
اور اس خاک میں اب کوئی نشانی بھی نہیں

یہ تو ظاہر میں تموج تھا بلا کا لیکن
یہ بدن میرا جہاں کوئی روانی بھی نہیں

یا تو اک موج بلا خیز ہے میری خاطر
یا کہ مشکیزۂ جاں میں کہیں پانی بھی نہیں

بات یہ ہے کہ سبھی بھائی مرے دشمن ہیں
مسئلہ یہ ہے کہ میں یوسف ثانی بھی نہیں

سچ تو یہ ہے کہ مرے پاس ہی درہم کم ہیں
ورنہ اس شہر میں اس درجہ گرانی بھی نہیں

سارے کردار ہیں انگشت بدنداں مجھ میں
اب تو کہنے کو مرے پاس کہانی بھی نہیں

ایک بے نام و نسب سچ مرا اظہار ہوا
ورنہ الفاظ میں وہ سیل معانی بھی نہیں