EN हिंदी
اور بھی ہو گئے بیگانہ وہ غفلت کر کے | شیح شیری
aur bhi ho gae begana wo ghaflat kar ke

غزل

اور بھی ہو گئے بیگانہ وہ غفلت کر کے

حسرتؔ موہانی

;

اور بھی ہو گئے بیگانہ وہ غفلت کر کے
آزمایا جو انہیں ضبط محبت کر کے

دل نے چھوڑا ہے نہ چھوڑے ترے ملنے کا خیال
بارہا دیکھ لیا ہم نے ملامت کر کے

دیکھنے آئے تھے وہ اپنی محبت کا اثر
کہنے کو یہ ہے کہ آئے ہیں عیادت کر کے

پستئ حوصلۂ شوق کی اب ہے یہ صلاح
بیٹھ رہئے غم ہجراں پہ قناعت کر کے

دل نے پایا ہے محبت کا یہ عالی رتبہ
آپ کے درد دواکار کی خدمت کر کے

روح نے پائی ہے تکلیف جدائی سے نجات
آپ کی یاد کو سرمایۂ راحت کر کے

چھیڑ سے اب وہ یہ کہتے ہیں کہ سنبھلو حسرتؔ
صبر و تاب دل بیمار کو غارت کر کے