EN हिंदी
عقل گو آستاں سے دور نہیں | شیح شیری
aql go aastan se dur nahin

غزل

عقل گو آستاں سے دور نہیں

علامہ اقبال

;

عقل گو آستاں سے دور نہیں
اس کی تقدیر میں حضور نہیں

دل بینا بھی کر خدا سے طلب
آنکھ کا نور دل کا نور نہیں

علم میں بھی سرور ہے لیکن
یہ وہ جنت ہے جس میں حور نہیں

کیا غضب ہے کہ اس زمانے میں
ایک بھی صاحب سرور نہیں

اک جنوں ہے کہ باشعور بھی ہے
اک جنوں ہے کہ باشعور نہیں

ناصبوری ہے زندگی دل کی
آہ وہ دل کہ ناصبور نہیں

بے حضوری ہے تیری موت کا راز
زندہ ہو تو تو بے حضور نہیں

ہر گہر نے صدف کو توڑ دیا
تو ہی آمادۂ ظہور نہیں

ارنی میں بھی کہہ رہا ہوں مگر
یہ حدیث کلیم و طور نہیں