EN हिंदी
اپنے غم کا مجھے کہاں غم ہے | شیح شیری
apne gham ka mujhe kahan gham hai

غزل

اپنے غم کا مجھے کہاں غم ہے

فراق گورکھپوری

;

اپنے غم کا مجھے کہاں غم ہے
اے کہ تیری خوشی مقدم ہے

آگ میں جو پڑا وہ آگ ہوا
حسن سوز نہاں مجسم ہے

اس کے شیطان کو کہاں توفیق
عشق کرنا گناہ آدم ہے

دل کے دھڑکوں میں زور ضرب کلیم
کس قدر اس حباب میں دم ہے

ہے وہی عشق زندہ و جاوید
جسے آب حیات بھی سم ہے

اس میں ٹھہراؤ یا سکون کہاں
زندگی انقلاب پیہم ہے

اک تڑپ موج تہ نشیں کی طرح
زندگی کی بنائے محکم ہے

رہتی دنیا میں عشق کی دنیا
نئے عنوان سے منظم ہے

اٹھنے والی ہے بزم ماضی کی
روشنی کم ہے زندگی کم ہے

یہ بھی نظم حیات ہے کوئی
زندگی زندگی کا ماتم ہے

اک معمہ ہے زندگی اے دوست
یہ بھی تیری ادائے‌ مبہم ہے

اے محبت تو اک عذاب سہی
زندگی بے ترے جہنم ہے

اک تلاطم سا رنگ و نکہت کا
پیکر ناز میں دما دم ہے

پھرنے کو ہے رسیلی نیم نگاہ
آہوئے ناز مائل رم ہے

روپ کے جوت زیر پیراہن
گلستاں پر ردائے شبنم ہے

میرے سینے سے لگ کے سو جاؤ
پلکیں بھاری ہیں رات بھی کم ہے

آہ یہ مہربانیاں تیری
شادمانی کی آنکھ پر نم ہے

نرم و دوشیزہ کس قدر ہے نگاہ
ہر نظر داستان مریم ہے

مہر و مہ شعلہ ہائے ساز جمال
جس کی جھنکار اتنی مدھم ہے

جیسے اچھلے جنوں کی پہلی شام
اس ادا سے وہ زلف برہم ہے

یوں بھی دل میں نہیں وہ پہلی امنگ
اور تیری نگاہ بھی کم ہے

اور کیوں چھیڑتی ہے گردش چرخ
وہ نظر پھر گئی یہ کیا کم ہے

روکش صد حریم دل ہے فضا
وہ جہاں ہیں عجیب عالم ہے

دیئے جاتی ہے لو صدائے فراقؔ
ہاں وہی سوز و ساز کم کم ہے