EN हिंदी
اپنا سایہ بھی نہ ہمراہ سفر میں رکھنا | شیح شیری
apna saya bhi na ham-rah safar mein rakhna

غزل

اپنا سایہ بھی نہ ہمراہ سفر میں رکھنا

اختر ہوشیارپوری

;

اپنا سایہ بھی نہ ہمراہ سفر میں رکھنا
پختہ سڑکیں ہی فقط راہ گزر میں رکھنا

غیر محفوظ سمجھ کر نہ غنیم آ جائے
دوستو! میں نہ سہی خود کو نظر میں رکھنا

کہیں ایسا نہ ہو میں حد خبر سے گزروں
کوئی عالم ہو مجھے اپنی خبر میں رکھنا

آئنہ ٹوٹ کے بکھرے تو کئی عکس ملے
اب ہتھوڑا ہی کف آئنہ گر میں رکھنا

مشغلے کبر سنی میں وہی بچپن والے
کبھی تصویریں کبھی آئنے گھر میں رکھنا

بہتے دریاؤں کو ساحل ہی سے تکتے رہنا
اور جلتے ہوئے گھر دیدۂ تر میں رکھنا

کوئی تو ایسا ہو جو تم کو بچائے تم سے
کوئی تو اپنا بہی خواہ سفر میں رکھنا

کوئی بھی چیز نہ رکھنا کہ تعاقب میں ہیں لوگ
اپنی مٹی ہی مگر دست ہنر میں رکھنا

جنگلوں میں بھی ہوا سے وہی رشتہ اخترؔ
شہر میں بھی یہی سودا مجھے سر میں رکھنا